عشق میں دل کا یہ منظر دیکھا
آگ میں جیسے سمندر دیکھا
کھو گئے ہم تری آہٹ پا کر
یعنی آواز کو سن کر دیکھا
جس کو سن کر نہ یقیں آئے کبھی
فی زمانہ وہی اکثر دیکھا
نارسائ جنوں محکم ہے
ہم نے دیوار میں در کر دیکھا
دل پہ اک نقش کف پا ابھرا
ایک صحرا میں گل تر دیکھا
میں وہ مومن ہوں کہ جس نے پتھر
کبھی چوما کبھی چھو کر دیکھا
ڈوب جانے کا خیال آیا جہاں
وہیں پایاب سمندر دیکھا
بسکہ منسوب تھا اک نام کے ساتھ
مطمئن ہی دل اخگرؔ دیکھا

غزل
عشق میں دل کا یہ منظر دیکھا
حنیف اخگر