EN हिंदी
عشق میں ایسی کرامات کہاں تھی پہلے | شیح شیری
ishq mein aisi karamat kahan thi pahle

غزل

عشق میں ایسی کرامات کہاں تھی پہلے

شیو دیال سحاب

;

عشق میں ایسی کرامات کہاں تھی پہلے
آپ کے حسن میں یہ بات کہاں تھی پہلے

اب یہ صورت ہے کہ امکاں ہی نہیں فرقت کا
ان سے دن رات ملاقات کہاں تھی پہلے

عکس نے دیکھ لیا حسن کو آئینے میں
عشق میں ایسی کرامات کہاں تھی پہلے

رنگ لایا ہے یہ اس گل کا تصور شاید
ورنہ رنگینیٔ جذبات کہاں تھی پہلے

عقل راس آ نہ گئی ہو ترے دیوانے کو
فکر نا سازیٔ حالات کہاں تھی پہلے

نغمے تیرے ہیں مگر ہیں مرے ہونٹوں پہ رواں
میری ہر بات تری بات کہاں تھی پہلے

ڈھل گیا عشق بھی اب حسن کے سانچے میں سحابؔ
بازئ زیست میں یوں مات کہاں تھی پہلے