EN हिंदी
عشق کیا چیز ہے یہ پوچھیے پروانے سے | شیح شیری
ishq kya chiz hai ye puchhiye parwane se

غزل

عشق کیا چیز ہے یہ پوچھیے پروانے سے

ساحر ہوشیار پوری

;

عشق کیا چیز ہے یہ پوچھیے پروانے سے
زندگی جس کو میسر ہوئی جل جانے سے

موت کا خوف ہو کیا عشق کے دیوانے کو
موت خود کانپتی ہے عشق کے دیوانے سے

ہو گیا ڈھیر وہیں آہ بھی نکلی نہ کوئی
جانے کیا بات کہی شمع نے پروانے سے

حسن بے عشق کہیں رہ نہیں سکتا زندہ
بجھ گئی شمع بھی پروانے کے جل جانے سے

کھائے جاتی ہے ندامت مجھے اس غفلت کی
ہوش میں آ کے چلا آیا ہوں میخانے سے

کر دیا گردش ایام نے رسوا ساحرؔ
مجھ کو شکوہ ہے یگانے سے نہ بیگانے سے