EN हिंदी
عشق کی آگ میں اب شمع سا جل جاؤں گا | شیح شیری
ishq ki aag mein ab shama sa jal jaunga

غزل

عشق کی آگ میں اب شمع سا جل جاؤں گا

عشق اورنگ آبادی

;

عشق کی آگ میں اب شمع سا جل جاؤں گا
تجھ لگن بیچ قدم گاڑ نہ ٹل جاؤں گا

گر دم تیغ سے سو بار کٹے گی گردن
اپنی ثابت قدمی سیتے سنبھل جاؤں گا

میں وہ جاں باز و حوالہ ہوں پتنگے کی طرح
شمع رو تیرے اپر جان سے جل جاؤں گا

شجر موم سا ہوں عالم موہوم کے بیچ
مہرباں گرم نگاہی سے پگھل جاؤں گا

خاک اڑاتا ہوا ہستی کے تئیں دے برباد
سر بہ صحرا ہوں بگولے سا نکل جاؤں گا

تیرے کوچے کی طرف عزم کیا ہوں جاناں
آخرش یک دو قدم سر سے بھی چل جاؤں گا

چشم بد مست کو گردش میں جو لاوے ساقی
ابھی دو جام میں سرشار ہو چل جاؤں گا

عشقؔ ہے بال سے باریک صراط محشر
یا علیؔ کہہ کے تبھی اس پہ سنبھل جاؤں گا