عشق کے باب میں کردار ہوں دیوانے کا
میں نہ آغاز نہ انجام ہوں افسانے کا
کچھ نہیں نقد جنوں اپنا بجز داغ الم
یوں تو ہر ذرہ گہر تاب تھا ویرانے کا
حسن بھی کہتے ہیں تنویر نظر کو کچھ لوگ
شمع بھی نام ہے اس بزم میں پروانے کا
شکر ہے تیری طلب جزو الم ہے ورنہ
مجھ میں تھا حوصلہ جینے کا نہ مر جانے کا
چاہے جتنا بھی تجھے دیکھ کے مسرور ہو دل
تو ہی عنواں ہے غم زیست کے افسانے کا
مشکل عشق کو آسان کرو تم ہی نعیمؔ
اعتبار اس میں ہے اپنے کا نہ بیگانے کا
غزل
عشق کے باب میں کردار ہوں دیوانے کا
حسن نعیم