EN हिंदी
عشق کا روگ تو ورثے میں ملا تھا مجھ کو | شیح شیری
ishq ka rog to wirse mein mila tha mujhko

غزل

عشق کا روگ تو ورثے میں ملا تھا مجھ کو

بھارت بھوشن پنت

;

عشق کا روگ تو ورثے میں ملا تھا مجھ کو
دل دھڑکتا ہوا سینے میں ملا تھا مجھ کو

ہاں یہ کافر اسی حجرے میں ملا تھا مجھ کو
ایک مومن جہاں سجدے میں ملا تھا مجھ کو

اس کو بھی میری طرح اپنی وفا پر تھا یقیں
وہ بھی شاید اسی دھوکے میں ملا تھا مجھ کو

اس نے ہی بزم کے آداب سکھائے تھے مجھے
وہ جو اک شخص اکیلے میں ملا تھا مجھ کو

منزل ہوش پہ اک میں ہی نہیں تھا تنہا
یاں تو ہر شخص ہی نشے میں ملا تھا مجھ کو

یہ بھی اک عیب تھا میری ہی نظر کا شاید
روز کچھ فرق سا چہرے میں ملا تھا مجھ کو

ایسے حالات میں کیا اس سے گلا کرتا میں
رات سورج بھی اندھیرے میں ملا تھا مجھ کو

میں اگر ڈوب نہ جاتا تو وہاں کیا کرتا
اک سمندر تھا جو قطرے میں ملا تھا مجھ کو

روح کی پیاس بجھانا کوئی آسان نہ تھا
صاف پانی بڑے گہرے میں ملا تھا مجھ کو

سچ تو یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی منزل ہی نہ تھی
وہ بھی رستہ تھا جو رستے میں ملا تھا مجھ کو