عشق کا روگ بھلا کیسے پلے گا مجھ سے
قتل ہوتا ہی نہیں یار انا کا مجھ سے
گرم پانی کی ندی کھل گئی سینے پہ مرے
کل گلے لگ کے بڑی دیر وہ رویا مجھ سے
میں بتاتا ہوں کچھ اک دن سے سبھی کو کم تر
صاحبو اٹھ گیا کیا میرا بھروسہ مجھ سے
اک ترا خواب ہی کافی ہے مرے اڑنے کو
رشک کرتا ہے مری جان پرندہ مجھ سے
یک بہ یک ڈوب گیا اشکوں کے دریا میں میں
باندھ یادوں کا تری آج جو ٹوٹا مجھ سے
کسی پتھر سے دبی ہے میری ہر اک دھڑکن
سیکھ لو ضبط کا جو بھی ہے سلیقہ مجھ سے
کوئی دروازہ نہیں کھلتا مگر جان مری
بات کرتا ہے ترے گھر کا دریچہ مجھ سے
بجھ گیا میں تو غزل پڑھ کے وہ جس میں تو تھا
پر ہوا بزم کی رونق میں اضافہ مجھ سے

غزل
عشق کا روگ بھلا کیسے پلے گا مجھ سے
پرکھر مالوی کانھا