عشق جھیلا ہے تو چہرہ زرد ہونا چاہئے
حسن کے شیدائیوں کو مرد ہونا چاہئے
بد گمانی پونچھ کر آنچل سے کوئی چوم لے
اس لئے تصویر پر کچھ گرد ہونا چاہئے
سچ کہو تو ہر کہانی داستان اپنی ہی ہے
آدمی کے دل میں تھوڑا درد ہونا چاہئے
آج کے بوسوں میں سچائی کی سرخی ہے کہاں
اے مصور ان لبوں کو زرد ہونا چاہئے
اس مکاں میں رہنے والے مردہ دل انسان ہیں
اس محل کے پتھروں کو سرد ہونا چاہئے
ایک جیسے چہرے مہرے ایک جیسی نیتیں
بھیڑ میں سب سے الگ اک فرد ہونا چاہئے
ماں کا آنچل تھام کر رونا بہت آسان ہے
دور رہ کر رونے والا مرد ہونا چاہئے
غزل
عشق جھیلا ہے تو چہرہ زرد ہونا چاہئے
ف س اعجاز