اس طریقے کو عداوت میں روا رکھتا ہوں میں
اپنے دشمن کے لیے حرف دعا رکھتا ہوں میں
میں فقیری میں بھی اہل زر سے بہتر ہی رہا
کچھ نہیں رکھتا مگر نام خدا رکھتا ہوں میں
میں کبھی تنہا نہیں ہوتا سر کنج چمن
وہ نہ ہوں تو ہاتھ میں دست صبا رکھتا ہوں میں
میں نے کم کھویا سوا پایا ہے کار عشق میں
دل جہاں تھا اب وہاں اک دل ربا رکھتا ہوں میں
جانے کب آ جائے وہ صہبا مثال فصل گل
اس لیے ویرانۂ دل کو سجا رکھتا ہوں میں

غزل
اس طریقے کو عداوت میں روا رکھتا ہوں میں
صہبا اختر