EN हिंदी
اس قدر ناز ہے کیوں آپ کو یکتائی کا | شیح شیری
is qadar naz hai kyun aapko yaktai ka

غزل

اس قدر ناز ہے کیوں آپ کو یکتائی کا

داغؔ دہلوی

;

اس قدر ناز ہے کیوں آپ کو یکتائی کا
دوسرا نام ہے وہ بھی مری تنہائی کا

کیا چھپے راز الٰہی دل شیدائی کا
عرصۂ حشر تو بازار ہے رسوائی کا

جان لے جائے گا آنا شب تنہائی کا
کون اب روکنے والا ہے مری آئی کا

خوگر رنج و بلا حشر کے دن کیا خوش ہوں
کہ وہ مال آج ہوا ہے شب تنہائی کا

زندہ ہے نام شہادت کا اسی کے دم سے
تیرے کشتہ نے کیا کام مسیحائی کا

ہر گلی کوچے میں پامال اسے ہو جانا
دل ہے یا نقش قدم ہے کسی ہرجائی کا

اس ادب سے تہہ شمشیر تڑپنا اے دل
کہ گماں تیری تپش پر ہو شکیبائی کا

فتنے بھی قاعدے سے اٹھتے ہیں جب اٹھتے ہیں
کیا سلیقہ ہے تمہیں انجمن آرائی کا

وہ یہ کہتے ہیں مرا صبر پڑے گا تجھ پر
اب مجھے رنج نہیں اپنی شکیبائی کا

کیا غرض ہے مری تقدیر کو مجھ سے پوچھے
آبرو کا ہے طلب گار کہ رسوائی کا

واں شب وعدہ ملی پاؤں میں مہندی اس نے
یاں کلیجا کوئی ملتا ہے تمنائی کا

رات بھر شمع رہی ہجر میں وہ بھی خاموش
ملتجی تھا تری تصویر سے گویائی کا

سر مرا کاٹ کے دہلیز پر اپنی رکھ دو
شوق باقی ہے ابھی ناصیہ فرسائی کا

یوں نہ مقبول ہوا ہوگا کسی کا سجدہ
بت کو ارمان رہا میری جبیں سائی کا

ہو گیا پرتو رخسار سے کچھ اور ہی رنگ
میں نے منہ چوم لیا اس کے تماشائی کا

تھم گئے جم گئے آنکھوں میں لہو کے قطرے
خون ظاہر ہے مرے صبر و شکیبائی کا

بن گیا داغ جگر مہر قیامت اے داغؔ
پر ابھی رنگ وہی ہے شب تنہائی کا