EN हिंदी
اس پار کا ہو کے بھی میں اس پار گیا ہوں | شیح شیری
is par ka ho ke bhi mein us par gaya hun

غزل

اس پار کا ہو کے بھی میں اس پار گیا ہوں

اسحاق وردگ

;

اس پار کا ہو کے بھی میں اس پار گیا ہوں
اک اسم کی برکت سے کئی بار گیا ہوں

خیرات میں دے آیا ہوں جیتی ہوئی بازی
دنیا یہ سمجھتی ہے کہ میں ہار گیا ہوں

تھامے ہوئے اک روشنی کے ہاتھ کو ہر شب
پانی پہ قدم رکھ کے میں اس پار گیا ہوں

دروازے کو اوقات میں لانے کے لیے میں
دیوار کے اندر سے کئی بار گیا ہوں

کیا میرے لیے ایک بھی کردار نہیں تھا
کیوں اپنی کہانی سے میں بے کار گیا ہوں

مشکل ہے تجھے آگ کے دریا سے بچا لوں
اے شہر پشاور میں تجھے ہار گیا ہوں

خوابوں نے جو اک کھیل بنایا تھا مرے دوست
اس کھیل میں تعبیر سے میں ہار گیا ہوں