EN हिंदी
اس نئے غم سے کنارہ بھی تو ہو سکتا ہے | شیح شیری
is nae gham se kinara bhi to ho sakta hai

غزل

اس نئے غم سے کنارہ بھی تو ہو سکتا ہے

ناظر وحید

;

اس نئے غم سے کنارہ بھی تو ہو سکتا ہے
عشق پھر ہم کو دوبارہ بھی تو ہو سکتا ہے

آپ اندازہ لگاتے رہیں بس جگنو کا
مری مٹھی میں ستارہ بھی تو ہو سکتا ہے

کیا ضروری ہے کہ یہ جان لٹا دی جائے
اس کی یادوں پہ گزارا بھی تو ہو سکتا ہے

دل کی بستی سے سر شام جو اٹھا ہے دھواں
اچھے موسم کا اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے

آپ کو ہم سے محبت بھی تو ہو سکتی ہے
اور محبت میں خسارہ بھی تو سکتا ہے

یہ جو پھیلا ہے فلک تک شب ہجراں کا غبار
مری وحشت کا نظارہ بھی تو ہو سکتا ہے