اس لئے دوڑتے ہی ایسے ہیں
ہم کو کچھ وسوسے ہی ایسے ہیں
واں پہ گندم بھی کھا نہیں سکتے
خلد میں مسئلے ہی ایسے ہیں
یا تو سارا جہان بہرا ہے
یا تو ہم بولتے ہی ایسے ہیں
روح بھی کیا کرے میاں آخر
جسم کے مشغلے ہی ایسے ہیں
یا مرا عکس جھوٹ کہتا ہے
یا سبھی آئنے ہی ایسے ہیں
اس کو چھپنے میں لطف آتا ہے
ہم اسے ڈھونڈتے ہی ایسے ہیں
جانئے اب ہوئے ہیں ایسے ہم
یا شروعات سے ہی ایسے ہیں

غزل
اس لئے دوڑتے ہی ایسے ہیں
فراز محمود فارز