اس جہاں سے کوئی بھی سودا نہ کر
دیکھ اپنے آپ کو رسوا نہ کر
چھین کر یادوں کا سرمایہ مری
اس بھری محفل میں یوں تنہا نہ کر
اجنبی ہوں اجنبی ہی رہنے دے
اس طرح میری طرف دیکھا نہ کر
پتھروں کی چوٹ سہہ لیتا ہوں میں
پھول یوں میری طرف پھینکا نہ کر
کر سحرؔ کی آبرو کا کچھ خیال
محفل اغیار میں چرچا نہ کر

غزل
اس جہاں سے کوئی بھی سودا نہ کر
رمضان علی سحر