EN हिंदी
اس جہاں سے کوئی بھی سودا نہ کر | شیح شیری
is jahan se koi bhi sauda na kar

غزل

اس جہاں سے کوئی بھی سودا نہ کر

رمضان علی سحر

;

اس جہاں سے کوئی بھی سودا نہ کر
دیکھ اپنے آپ کو رسوا نہ کر

چھین کر یادوں کا سرمایہ مری
اس بھری محفل میں یوں تنہا نہ کر

اجنبی ہوں اجنبی ہی رہنے دے
اس طرح میری طرف دیکھا نہ کر

پتھروں کی چوٹ سہہ لیتا ہوں میں
پھول یوں میری طرف پھینکا نہ کر

کر سحرؔ کی آبرو کا کچھ خیال
محفل اغیار میں چرچا نہ کر