اس غم کی دھوپ میں مجھے پروائیاں نہ دو
جلنے دو اپنی زلف کی پرچھائیاں نہ دو
لرزاں ہیں دو جہاں قیامت بپا نہ ہو
اپنے شعور حسن کو انگڑائیاں نہ دو
آ جاؤ کب سے خلق ترستی ہے دید کو
پردے میں اپنے آپ کو تنہائیاں نہ دو
ہو جائے جس میں غرق مری کشتئ امید
وہ بحر اضطراب کی گہرائیاں نہ دو
ہوتی ہیں کارگر کہیں جھوٹی تسلیاں
اے چارہ سازو دل کو شکیبائیاں نہ دو
روز ازل سے ہے دل وحشی جنوں پسند
مجنوں کو ذوق انجمن آرائیاں نہ دو
آفتؔ اٹھا لوں ہاتھ نہ اس زیست سے کہیں
میرے جنون عشق کو رسوائیاں نہ دو

غزل
اس غم کی دھوپ میں مجھے پروائیاں نہ دو
للن چودھری