اس اہتمام سے پروانے پیشتر نہ جلے
طواف شمع کریں اور کسی کے پر نہ جلے
ہوا ہی ایسی چلی ہے ہر ایک سوچتا ہے
تمام شہر جلے ایک میرا گھر نہ جلے
ہمیں یہ دکھ کہ نمود سحر نہ دیکھ سکے
سحر کو ہم سے شکایت کہ تا سحر نہ جلے
چراغ شہر نہیں ہم چراغ صحرا ہیں
کسے خبر کہ جلے اور کسے خبر نہ جلے
تری دلیل بجا پر یہ کیسے مانا جائے
شجر کو آگ لگے اور کوئی ثمر نہ جلے
شعور قرب کی یہ بھی ہے اک عجب منزل
ہم اس کو غیر کی محفل میں دیکھ کر نہ جلے
یہ شام مرگ تمنا کی شام ہے صادقؔ
کوئی چراغ کسی طاق چشم پر نہ جلے

غزل
اس اہتمام سے پروانے پیشتر نہ جلے
صادق نسیم