EN हिंदी
اس دنیا میں اپنا کیا ہے | شیح شیری
is duniya mein apna kya hai

غزل

اس دنیا میں اپنا کیا ہے

ناصر کاظمی

;

اس دنیا میں اپنا کیا ہے
کہنے کو سب کچھ اپنا ہے

یوں تو شبنم بھی ہے دریا
یوں تو دریا بھی پیاسا ہے

یوں تو ہیرا بھی ہے کنکر
یوں تو مٹی بھی سونا ہے

منہ دیکھے کی باتیں ہیں سب
کس نے کس کو یاد کیا ہے

تیرے ساتھ گئی وہ رونق
اب اس شہر میں کیا رکھا ہے

بات نہ کر صورت تو دکھا دے
تیرا اس میں کیا جاتا ہے

دھیان کے آتش دان میں ناصرؔ
بجھے دنوں کا ڈھیر پڑا ہے