EN हिंदी
اس در کی سی راحت بھی دو عالم میں کہیں ہے | شیح شیری
is dar ki si rahat bhi do aalam mein kahin hai

غزل

اس در کی سی راحت بھی دو عالم میں کہیں ہے

راز یزدانی

;

اس در کی سی راحت بھی دو عالم میں کہیں ہے
جینا بھی یہیں ہے مجھے مرنا بھی یہیں ہے

اب واقف مفہوم وفا قلب حزیں ہے
اب آپ کی بیداد بھی بیداد نہیں ہے

تم اور مری خانہ خرابی پہ تبسم
امید سے بڑھ کر ابھی قدر دل و دیں ہے

یا تیرے سوا حسن ہی دنیا میں نہیں تھا
یا دیکھ رہا ہوں کہ جو منظر ہے حسیں ہے

یہ زیست ہے یا موت سمجھ میں نہیں آتا
اب درد ہے اور درد کی تکلیف نہیں ہے