اس در کی سی راحت بھی دو عالم میں کہیں ہے
جینا بھی یہیں ہے مجھے مرنا بھی یہیں ہے
اب واقف مفہوم وفا قلب حزیں ہے
اب آپ کی بیداد بھی بیداد نہیں ہے
تم اور مری خانہ خرابی پہ تبسم
امید سے بڑھ کر ابھی قدر دل و دیں ہے
یا تیرے سوا حسن ہی دنیا میں نہیں تھا
یا دیکھ رہا ہوں کہ جو منظر ہے حسیں ہے
یہ زیست ہے یا موت سمجھ میں نہیں آتا
اب درد ہے اور درد کی تکلیف نہیں ہے

غزل
اس در کی سی راحت بھی دو عالم میں کہیں ہے
راز یزدانی