EN हिंदी
اس بت سے دل لگا کے بہت سوچتے رہے | شیح شیری
is but se dil laga ke bahut sochte rahe

غزل

اس بت سے دل لگا کے بہت سوچتے رہے

للن چودھری

;

اس بت سے دل لگا کے بہت سوچتے رہے
صبر و سکوں لٹا کے بہت سوچتے رہے

جب سامنا ہوا تو زباں رک گئی مری
وہ بھی نظر جھکا کے بہت سوچتے رہے

دیوانگئ شوق میں اپنے ہی ہاتھ سے
گھر اپنا ہم جلا کے بہت سوچتے رہے

امڈا جو ابر یاد نے ان کی رلا دیا
خالی سبو اٹھا کے بہت سوچتے رہے

کہتے کسے چمن میں لٹے آشیاں کی بات
تنکے اٹھا اٹھا کے بہت سوچتے رہے

دیکھا یہ جب کہ یاس و تباہی ہے حشر عشق
آنسو بہا بہا کے بہت سوچتے رہے

آفتؔ بشر نے جب بھی بشر پر کیا ستم
ہم دکھ سے تلملا کے بہت سوچتے رہے