اس بے طلوع شب میں کیا طالع آزمائی
خورشید لاکھ ابھرے لیکن سحر نہ آئی
کب تک فریب جادہ کب تک غبار منزل
اے درد ناتمامی اے رنج نارسائی
ہر گل کا چاک سینہ گلزار آفرینا
اب کے عجب خزینہ تیری بہار لائی
ساحل پہ خیمہ کش ہیں آسودگان ساحل
طوفان کر رہے ہیں کشتی کی نا خدائی
ہر آہ کہہ رہی ہے اک درد کا فسانہ
ہر اشک لکھ رہا ہے اک قصۂ جدائی
صہبا کہاں ہے یارو کوئی اسے پکارو
ویران ہو رہا ہے کنج غزل سرائی

غزل
اس بے طلوع شب میں کیا طالع آزمائی
صہبا اختر