اس آنکھ میں خواب ناز ہو جا
اے ہجر کی شب دراز ہو جا
اسرار تمام کھل رہے ہیں
تو اپنے لیے بھی راز ہو جا
اے نغمہ نواز آخر شب
آہنگ شکست ساز ہو جا
دیوار کی طرح بند کیوں ہے
دستک کوئی دے تو باز ہو جا
اب دن تو غروب ہو رہا ہے
سائے کی طرح دراز ہو جا
یاں فتح سبب ہے سرکشی کا
تو ہار کے سرفراز ہو جا
تو شیشہ بنے کہ سنگ کچھ بن
اندر سے مگر گداز ہو جا
اس آنکھ سے سیکھ راز عصمت
کھل کھیل کے پاک باز ہو جا

غزل
اس آنکھ میں خواب ناز ہو جا
سلیم احمد