ارتباط باہمی شیخ و برہمن میں نہیں
جو مزہ ہے مل کے رہنے میں وہ ان بن میں نہیں
نالہ سنجئ عنادل سے یہ چلتا ہے پتہ
نام کو بوئے وفا ارباب گلشن میں نہیں
دیر و کعبہ کی پرستش پھر بھلا کس کام کی
جب خلوص بندگی شیخ و برہمن میں نہیں
پھر کھٹکتے ہیں نگاہ باغباں میں کس لئے
خیر سے اب چار تنکے بھی نشیمن میں نہیں
عمر بھر مجھ کو جلا کے شمع و گل کیوں لائے اب
داغ دل کی روشنی کیا میرے مدفن میں نہیں
پھر تڑپ کر بار بار آتی ہے بجلی کس لئے
ایک تنکا بھی تو اب میرے نشیمن میں نہیں
اپنے دل کی آپ نے پہنائیاں دیکھیں کہاں
ایسی وسعت تو قیامت کے بھی دامن میں نہیں
ہاتھ سینے پر نہ رکھو ہو چکا قصہ تمام
اب کوئی آواز میرے دل کی دھڑکن میں نہیں
ہیں سبق آموز اوراق کتاب گل مگر
جز فریب رنگ و بو کچھ ان کے دامن میں نہیں
دیکھ کر وہ زخم دل کی کرتی کیا بخیہ گری
نور کا ڈورا سواد چشم سوزن میں نہیں
اس قدر پیسا زمانے نے مجھے شعلہؔ کہ اب
ایک دانہ بھی مری قسمت کا خرمن میں نہیں

غزل
ارتباط باہمی شیخ و برہمن میں نہیں
شعلہ کراروی