ارادہ ہو اٹل تو معجزہ ایسا بھی ہوتا ہے
دیے کو زندہ رکھتی ہے ہوا ایسا بھی ہوتا ہے
سنائی دے نہ خود اپنی صدا ایسا بھی ہوتا ہے
میاں تنہائی کا اک سانحہ ایسا بھی ہوتا ہے
چھڑے ہیں تار دل کے خانہ بربادی کے نغمے ہیں
ہمارے گھر میں صاحب رت جگا ایسا بھی ہوتا ہے
بہت حساس ہونے سے بھی شک کو راہ ملتی ہے
کہیں اچھا تو لگتا ہے برا ایسا بھی ہوتا ہے
کسی معصوم بچے کے تبسم میں اتر جاؤ
تو شاید یہ سمجھ پاؤ خدا ایسا بھی ہوتا ہے
زباں پر آ گئے چھالے مگر یہ تو کھلا ہم پر
بہت میٹھے پھلوں کا ذائقہ ایسا بھی ہوتا ہے
غزل
ارادہ ہو اٹل تو معجزہ ایسا بھی ہوتا ہے
ظفر گورکھپوری