انتشار و خوف ہر اک سر میں ہے
عافیت سے کون اپنے گھر میں ہے
زندگی پر سب حقیقت کھل چکی
تو ابھی تک خواب کے پیکر میں ہے
مطمئن انساں کہیں پر بھی نہیں
ایک سی حالت زمانے بھر میں ہے
رات کی چٹان سے صبحیں تراش
خواب کی تعبیر اسی پتھر میں ہے
جھوٹ کی بن آئی ہے چاروں طرف
سچ اگر ہے بھی تو پس منظر میں ہے
برف احساسات کی پگھلا سکے
وہ شرر ماضی کی خاکستر میں ہے
ٹوٹ جانے تک اڑیں گے ہم نیازؔ
حوصلہ اتنا تو بال و پر میں ہے
غزل
انتشار و خوف ہر اک سر میں ہے
عبدالمتین نیاز