ان ظالموں کو جور سوا کام ہی نہیں
گویا کہ ان کے ظلم کا انجام ہی نہیں
غم وصل میں ہے ہجر کا ہجراں میں وصل کا
ہرگز کسی طرح مجھے آرام ہی نہیں
کیا کیا خرابیاں میں ترے واسطے سہیں
تس پر بھی چاہنے کا مرے نام ہی نہیں
اب ہم دنوں کو اپنے نہ روئیں تو کیا کریں
کرنے تھے جن میں عیش وے ایام ہی نہیں
وے شخص جن سے فخر جہاں کو تھا اب وے ہائے
ایسے گئے کہ ان کا کہیں نام ہی نہیں
تم جو ہر اک کے دل کو ستاتے ہو کیا میاں
آغاز کا جفا کے کچھ انجام ہی نہیں
تاباںؔ بتا میں عجز کہاں تک کیا کروں
جز ترک مہر یار کا پیغام ہی نہیں
غزل
ان ظالموں کو جور سوا کام ہی نہیں
تاباں عبد الحی