ان سبھی درختوں کو آندھیوں نے گھیرا ہے
جن کی سبز شاخوں پر پنچھیوں کا ڈیرا ہے
آج کے زمانے میں کس کو رہنما سمجھیں
اب تو ہر قبیلے کا راہ بر لٹیرا ہے
سو دیے جلائے ہیں دوستوں کے آنگن میں
پھر بھی میرے آنگن میں ہر طرف اندھیرا ہے
تجھ کو کچھ خبر بھی ہے میرے دل کی شہزادی
میرے دل کے گوشے میں بس خیال تیرا ہے
تیرے ہجر میں میری دیکھ بجھ گئیں آنکھیں
کچھ نظر نہیں آتا ہر طرف اندھیرا ہے
ظلم سہہ کے بھی میں نے ہونٹ سی لیے غازیؔ
ایک ظرف ان کا ہے ایک ظرف میرا ہے

غزل
ان سبھی درختوں کو آندھیوں نے گھیرا ہے
شاہد غازی