EN हिंदी
ان کے رخ پر حجاب رہتا ہے | شیح شیری
in ke ruKH par hijab rahta hai

غزل

ان کے رخ پر حجاب رہتا ہے

لئیق اکبر سحاب

;

ان کے رخ پر حجاب رہتا ہے
جیسے مہ پر سحاب رہتا ہے

وصل کا جب سوال ہو ان سے
بس ''نہیں'' میں جواب رہتا ہے

پاس رہ کر بھی درمیاں اپنے
فاصلہ بے حساب رہتا ہے

حسن والوں سے جو وفا چاہے
اس کا خانہ خراب رہتا ہے

ہم سفر سوہنی سی ہو کوئی
میرے خوں میں چناب رہتا ہے

مثل طائر ہوا میں اڑتا ہوں
میری آنکھوں میں خواب رہتا ہے

ریگ صحرا انہیں نگلتی ہے
جن کی رہ میں سراب رہتا ہے

ماں کی جس کو دعائیں مل جائیں
عمر بھر کامیاب رہتا ہے

جانے کس خاک سے بنا ہوں میں
روح میں اضطراب رہتا ہے

الجھے رشتوں کی تلخ الجھن میں
الجھا الجھا سحابؔ رہتا ہے