ان آنکھوں میں بسا کوئی زہرہ جبیں ہے اب
مضطر کچھ ایسا دل ہے ٹھہرتا نہیں ہے اب
بچپن ہی سے تھے رشک حسینان دل فریب
عہد شباب ان کا غضب دل نشیں ہے اب
دل دار میرے ہاں سے بہت مشتعل گیا
اے دل سمجھ لے خیر عدو کی نہیں ہے اب
عاشق تمہارا کہتے ہیں دیکھا نہیں کبھی
یعنی تمہاری یاد میں خلوت گزیں ہے اب
کافی ہے تیرے ہاتھ کا چھلا یہی مجھے
کچھ خاتم سلیماں کی حسرت نہیں ہے اب
افسانہ میرا سن کے پشیماں ہے چشم یار
کس درجہ خشمگیں تھی مگر شرمگیں ہے اب
کیا جانے یارو کس کے تصور میں کھو گیا
دیکھا جلالیؔ ہم نے سراپا حزیں ہے اب

غزل
ان آنکھوں میں بسا کوئی زہرہ جبیں ہے اب
رؤف یاسین جلالی