EN हिंदी
اک یہی وصف ہے اس میں جو امر لگتا ہے | شیح شیری
ek yahi wasf hai isMein jo amar lagta hai

غزل

اک یہی وصف ہے اس میں جو امر لگتا ہے

پریا تابیتا

;

اک یہی وصف ہے اس میں جو امر لگتا ہے
وہ کڑی دھوپ میں برگد کا شجر لگتا ہے

یوں تو چاہت میں نہاں جون کی حدت ہے مگر
سرد لہجے میں دسمبر کا اثر لگتا ہے

جب سے جانا کہ وہ ہم شہر ہے میرا تب سے
شہر لاہور بھی جادو کا نگر لگتا ہے

جانے کب گردش ایام بدل ڈالے تجھے
جیت کر تجھ کو مجھے ہار سے ڈر لگتا ہے

چاہے کتنی ہی سجاوٹ سے مزین ہو مگر
ماں نظر آئے تو گھر اصل میں گھر لگتا ہے

اس قدر اس کی نگاہوں میں تقدس ہے نہاں
سر جھکاتی ہوں تو پیپل کا شجر لگتا ہے