اک عمر ہوئی اور میں اپنے سے جدا ہوں
خوشبو کی طرح خود کو سدا ڈھونڈ رہا ہوں
ہر لمحہ تری یاد کے سائے میں کٹا ہے
تھک تھک کے ہر اک گام پہ جب بیٹھ گیا ہوں
تو لاکھ جدا مجھ سے رہے پاس ہے میرے
تو گنبد ہستی ہے تو میں اس کی صدا ہوں
ہر سانس تری باد سحر کا کوئی جھونکا
میں پھول نہیں اور ترے رستے میں کھلا ہوں
تصویر کی ہر نوک پلک ہے مرے خوں سے
اک رنگ ہوں میں اور ترے خوابوں میں گھلا ہوں
ہر سانس چلی آتی ہے جاں ہاتھ میں لے کر
میں سوچتا ہوں میں بھی کوئی کوہ ندا ہوں
زندہ ہوں کہ مرنا مری قسمت میں لکھا ہے
ہر روز گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہوں
اک عالم تنہائی ہے کچھ دیکھا ہوا سا
شاید کہ میں اپنے ہی بیاباں میں کھڑا ہوں
یہ حال مرا میری محبت کا صلہ ہے
جو اپنے ہی دامن سے بجھا ہو وہ دیا ہوں
تو چاند ہے میں چاند کا انجام سفر ہوں
آنکھوں میں تری دور کہیں ڈوب گیا ہوں
رسوا ہوں مگر خود سے چھپا پھرتا ہوں تابشؔ
اپنے سے نہاں سارے زمانے پہ کھلا ہوں
غزل
اک عمر ہوئی اور میں اپنے سے جدا ہوں
تابش صدیقی