اک شوخ کے ہونٹوں سے یہ جام تراشے ہیں
یہ جام تراشے ہیں انعام تراشے ہیں
آئنے پہ کیوں اتنے برہم نظر آتے ہو
جو شکلیں ملیں اس سے وہ نام تراشے ہیں
مسجد ہو کر مندر ہو کچھ فرق نہیں لیکن
خود ہم نے ہی نفرت کے اصنام تراشے ہیں
تقسیم ہوں مجبوراً میں کتنے ہی خانوں میں
دنیا نے مگر کیا کیا الزام تراشے ہیں
لکھے گا گلہ کیا ہے کرنے سے ہی ہوتا ہے
لوگوں نے پہاڑوں میں گلفام تراشے ہیں
فرزانوں کی بستی میں کیا کام نیازیؔ کا
دیوانوں سا لہجہ ہے ابہام تراشے ہیں

غزل
اک شوخ کے ہونٹوں سے یہ جام تراشے ہیں
قاسم نیازی