اک صحیفہ نیا اترا ہے سنا ہے لوگو
مارنا دوست کا بھی جس میں روا ہے لوگو
ہم نے جو کچھ نہ کیا اس کی سزا بھی پائی
اور وہ جو بھی کرے سب ہی روا ہے لوگو
ظلم کی حد ہے جہاں ختم وہاں پر وہ ہے
ڈھونڈ لو اس کو یہی اس کا پتا ہے لوگو
دل میں اک شعلۂ امید تھا سو سرد ہوا
چاند ماتھے کا مرے کب کا بجھا ہے لوگو
جس کو تم کہتے ہو خوش بخت سدا ہے مظلوم
جینا ہر دور میں عورت کا خطا ہے لوگو
دیکھیے زخم کا کیا حال ہوا ہے رضیہؔ
آج تو درد مرا حد سے سوا ہے لوگو
غزل
اک صحیفہ نیا اترا ہے سنا ہے لوگو
رضیہ فصیح احمد