اک رات میں سو بار جلا اور بجھا ہوں
مفلس کا دیا ہوں مگر آندھی سے لڑا ہوں
جو کہنا ہو کہیے کہ ابھی جاگ رہا ہوں
سوؤں گا تو سو جاؤں گا دن بھر کا تھکا ہوں
قندیل سمجھ کر کوئی سر کاٹ نہ لے آئے
تاجر ہوں اجالے کا اندھیرے میں کھڑا ہوں
سب ایک نظر پھینک کے بڑھ جاتے ہیں آگے
میں وقت کے شو کیس میں چپ چاپ کھڑا ہوں
وہ آئنہ ہوں جو کبھی کمرے میں سجا تھا
اب گر کے جو ٹوٹا ہوں تو رستے میں پڑا ہوں
دنیا کا کوئی حادثہ خالی نہیں مجھ سے
میں خاک ہوں میں آگ ہوں پانی ہوں ہوا ہوں
مل جاؤں گا دریا میں تو ہو جاؤں گا دریا
صرف اس لیے قطرہ ہوں کہ دریا سے جدا ہوں
ہر دور نے بخشی مجھے معراج محبت
نیزے پہ چڑھا ہوں کبھی سولی پہ چڑھا ہوں
دنیا سے نرالی ہے نذیرؔ اپنی کہانی
انگاروں سے بچ نکلا ہوں پھولوں سے جلا ہوں
غزل
اک رات میں سو بار جلا اور بجھا ہوں
نذیر بنارسی