EN हिंदी
اک قیامت کا گھاؤ آنکھیں تھیں | شیح شیری
ek qayamat ka ghaw aankhen thin

غزل

اک قیامت کا گھاؤ آنکھیں تھیں

سیما غزل

;

اک قیامت کا گھاؤ آنکھیں تھیں
عشق طوفاں میں ناؤ آنکھیں تھیں

راستہ دل تلک تو جاتا تھا
اس کا پہلا پڑاؤ آنکھیں تھیں

ایک تہذیب تھا بدن اس کا
اس پہ اک رکھ رکھاؤ آنکھیں تھیں

جن کو اس نے چراغ سمجھا تھا
اس کو یہ تو بتاؤ آنکھیں تھیں

دل میں اترا وہ دیر سے لیکن
میرا پہلا لگاؤ آنکھیں تھیں

قطرہ قطرہ جو بہہ گئیں کل شب
آؤ تم دیکھ جاؤ آنکھیں تھیں