اک پیلی چمکیلی چڑیا کالی آنکھ نشیلی سی
بیٹھی ہے دریا کے کنارے میری طرح اکیلی سی
جب میں نشیب رنگ و بو میں اترا اس کی یاد کے ساتھ
اوس میں بھیگی دھوپ لگی ہے نرم ہری لچکیلی سی
کس کو خبر میں کس رستے کی دھول بنوں یا پھول بنوں
کیا جانے کیا رنگ دکھائے اس کی آنکھ پہیلی سی
تیز ہوا کی دھار سے کٹ کر کیا جانے کب گر جائے
لہراتی ہے شاخ تمنا کچی بیل چنبیلی سی
کم روشن اک خواب آئینہ اک پیلا مرجھایا پھول
پس منظر کے سناٹے میں ایک ندی پتھریلی سی
غزل
اک پیلی چمکیلی چڑیا کالی آنکھ نشیلی سی
زیب غوری