اک پھول میرے پاس تھا اک شمع میرے ساتھ تھی
باہر خزاں کا زور تھا اندر اندھیری رات تھی
ایسے پریشاں تو نہ تھے ٹوٹے ہوئے سناہٹے
جب عشق کی تیرے مرے غم پر بسر اوقات تھی
کچھ تم کہو تم نے کہاں کیسے گزارے روز و شب
اپنے نہ ملنے کا سبب تو گردش حالات تھی
اک خامشی تھی تر بہ تر دیوار مژگاں سے ادھر
پہنچا ہوا پیغام تھا برسی ہوئی برسات تھی
سب پھول دروازوں میں تھے سب رنگ آوازوں میں تھے
اک شہر دیکھا تھا کبھی اس شہر کی کیا بات تھی
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر سچ ہے اب ان کو کیا خبر
دل بھی کسی کا نام تھا غم بھی کسی کی ذات تھی
غزل
اک پھول میرے پاس تھا اک شمع میرے ساتھ تھی
احمد مشتاق