اک نشتر نگاہ ہے اس سے زیادہ کیا
دم بھر کی آہ آہ ہے اس سے زیادہ کیا
گردن سے طوق خوف و طلب کو نکالی دیکھ
پھر کوئی بادشاہ ہے اس سے زیادہ کیا
طاقت اگر ہے پاؤں میں صحرا کا خوف کیوں
بس اک کشادہ راہ ہے اس سے زیادہ کیا
وہ تو ہوا تھی بند نہ مٹھی میں ہو سکی
اب رنج خواہ مخواہ ہے اس سے زیادہ کیا
بالوں کو اپنے چھوڑ مری شام غم کو دیکھ
پھر دیکھ کچھ سیاہ ہے اس سے زیادہ کیا
ہر چند آج بھی ہے وہی کثرت امید
ہاری ہوئی سپاہ ہے اس سے زیادہ کیا
اک کنکری اچھال کے توڑو طلسم تاب
پانی میں عکس ماہ ہے اس سے زیادہ کیا
ہیں کامیاب جن کا یہاں جی نہیں لگا
دنیا کی درس گاہ ہے اس سے زیادہ کیا
گھٹتا ہی جائے گا یہ لطافت کے ساتھ ساتھ
یہ جسم زاد راہ ہے اس سے زیادہ کیا
خون جگر سے شعر لکھو اور ماحصل
دم بھر کی واہ واہ ہے اس سے زیادہ کیا
غزل
اک نشتر نگاہ ہے اس سے زیادہ کیا
محمد اعظم