EN हिंदी
اک نقش خیال رو بہ رو ہے | شیح شیری
ek naqsh-e-KHayal ru-ba-ru hai

غزل

اک نقش خیال رو بہ رو ہے

مضطر خیرآبادی

;

اک نقش خیال رو بہ رو ہے
جو کچھ ہے یہ کچھ نہیں ہے تو ہے

ہر پھول کے ساتھ ایک کانٹا
ہر دوست کے ساتھ اک عدو ہے

دل ہے تو ہزار تجھ سے اچھے
ایسا ہی تو اک بڑا وہ تو ہے

دشمن کے جگر کا خار میں ہوں
اور اس کے گلے کا ہار تو ہے

دامن جو ہے پردہ‌ دار وحشت
اس میں بھی کئی جگہ رفو ہے

میں آپ ہی آپ رو رہا ہوں
کچھ آپ ہی آپ گفتگو ہے

محشر میں کسی کا ہائے کہنا
اب آپ کے ہاتھ آبرو ہے

او غیر کو آنکھ دینے والے
مضطرؔ بھی نگاہ رو بہ رو ہے