اک نہ آنے والے کا انتظار کرتے ہیں
شمع رہگزر ہیں ہم روز بجھتے جلتے ہیں
میرے کچھ نہ کہنے کو حرف آرزو سمجھو
خامشی میں بھی معنی کچھ نہ کچھ نکلتے ہیں
ایک نشہ رہتا ہے تجھ سے مل کے پہروں تک
نشہ جب نہیں ہوتا اور ہم بہکتے ہیں
راہ درد میں کوئی ہم سفر نہیں ہوتا
اپنی آگ میں خود ہی شمع ساں پگھلتے ہیں
دیکھنا ہے کون عشقیؔ ساتھ دے سر منزل
ابتدا میں تو سب ہی ساتھ ساتھ چلتے ہیں
غزل
اک نہ آنے والے کا انتظار کرتے ہیں
شاہد عشقی