اک خواب تھا آنکھوں میں جو اب اشک سحر ہے
اک طائر وحشی تھا سو وہ خون میں تر ہے
وہ دور نہیں ہے یہ رسائی نہیں ہوتی
ہر لمحہ کوئی تازہ خم راہ گزر ہے
دل آج کچھ اس طرح دھڑکتا ہے کہ جیسے
اب شوق ملاقات پہ حاوی کوئی ڈر ہے
کچھ حوصلۂ ضبط ہے کچھ وضع ہے اپنی
شعلہ نہ بنا لب پہ جو سینے میں شرر ہے
سنتے تو رہے سب کی یہ حسرت رہی دل میں
ہم پر بھی کھلے زیست کا مفہوم اگر ہے
تاراج بہاراں ہے کہ اک جشن جنوں ہے
رقصاں ہیں بگولے کہ ہوا خاک بسر ہے
آشفتہ کیا اتنا ضیاؔ دربدری نے
باور نہیں آتا کہ ہمارا کوئی گھر ہے
غزل
اک خواب تھا آنکھوں میں جو اب اشک سحر ہے
ضیا جالندھری