اک خوشی کے لیے ہیں کتنے غم
مبتلائے صد آرزو ہیں ہم
دل بھی لوح و قلم کا ہمسر ہے
داستانیں ہیں کتنی دل پہ رقم
عظمت رفتگاں ہے نظروں میں
اپنے ماضی کو ڈھونڈتے ہیں ہم
پارہ پارہ ہے خود جنوں لیکن
فکر انساں اسی سے ہے محکم
بھیگی بھیگی ہے ہر کرن ان کی
ہے ستاروں کی آنکھ بھی پر نم
یوں نہ ہوتی سحر کی رسوائی
کاش کھلتا نہ روشنی کا بھرم
ہم ہیں اور احترام حسن وفا
وہ ہیں اور اہتمام مشق ستم
کمتر اس کو نہ کہئے یزدانیؔ
آدمی خود ہے جان دو عالم

غزل
اک خوشی کے لیے ہیں کتنے غم
یزدانی جالندھری