اک جگہ ہوں پھر وہاں اک یاد رہ جانے کے بعد
کس قدر پانی کسی دریا میں بہہ جانے کے بعد
اک جگہ خود مجھ کو اپنے سچ پہ شک سا پڑ گیا
پر یقیں کتنا تھا وہ اک جھوٹ کہہ جانے کے بعد
شام ہے اور جانے والا دن ہے میرے سامنے
رنج میں ہوں میرا سارا کام رہ جانے کے بعد
ہے یقیں مجھ کو کہ ہے رہنے کے قابل یہ جہاں
ہاں مگر کتنا خس و خاشاک بہہ جانے کے بعد
اک نئی تعمیر کا سوچوں گا پھر پہلے مجھے
صاف کرنی ہے زمیں اک شہر ڈھہ جانے کے بعد
یوں ہوا پھر میں نے اس سے کم تعلق کر لیا
اس کی کوئی بات اک مشکل سے سہہ جانے کے بعد
خود سے باتیں کر کے کوئی بوجھ ہلکا ہو گیا
کچھ سکوں آ جائے جیسے زخم بہہ جانے کے بعد
سوچ لے شاہیںؔ اسے پانا کہ کھونا ہے اسے
جا چکا ہے وہ تجھے اک بات کہہ جانے کے بعد
غزل
اک جگہ ہوں پھر وہاں اک یاد رہ جانے کے بعد
جاوید شاہین