اک حرف شوق لب پہ ہے اور التجا کے ساتھ
میں اک نئے سفر پہ ہوں اپنی انا کے ساتھ
میں نے عبادتوں کو محبت بنا دیا
آنکھیں بتوں کے ساتھ رہیں دل خدا کے ساتھ
کس قحط اعتبار سے گزرے ہیں اہل دل
رنگ وفا بھی اڑ گیا رنگ حنا کے ساتھ
میرا وجود حرف تقاضا بنا ہوا
مہر قبول اس کے لبوں پر حیا کے ساتھ
گل چہرہ لوگوں سے تھا مرا بھی معاملہ
آوارہ میں بھی ہو گیا موج صبا کے ساتھ
نا مستجاب اتنی دعائیں ہوئیں کہ پھر
میرا یقیں بھی اٹھ گیا رسم دعا کے ساتھ
گھر یاد آ رہا تھا چلے آئے ہیں مگر
ہم اپنے سر پہ لائے ہیں صحرا اٹھا کے ساتھ
آبادیوں کی خیر منانے کا وقت ہے
جنگل کی آگ پھیل رہی ہے ہوا کے ساتھ
غزل
اک حرف شوق لب پہ ہے اور التجا کے ساتھ
سرشار صدیقی