اک گل تر بھی شرر سے نکلا
بسکہ ہر کام ہنر سے نکلا
میں ترے بعد پھر اے گم شدگی
خیمۂ گرد سفر سے نکلا
غم نکلتا نہ کبھی سینے سے
اک محبت کی نظر سے نکلا
اے صف ابر رواں تیرے بعد
اک گھنا سایہ شجر سے نکلا
راستے میں کوئی دیوار بھی تھی
وہ اسی ڈر سے نہ گھر سے نکلا
ذکر پھر اپنا وہاں مدت بعد
کسی عنوان دگر سے نکلا
ہم کہ تھے نشۂ محرومی میں
یہ نیا درد کدھر سے نکلا
ایک ٹھوکر پہ سفر ختم ہوا
ایک سودا تھا کہ سر سے نکلا
ایک اک قصۂ بے معنی کا
سلسلہ تیری نظر سے نکلا
لمحے آداب تسلسل سے چھٹے
میں کہ امکان سحر سے نکلا
سر منزل ہی کھلا اے بانیؔ
کون کس راہ گزر سے نکلا
غزل
اک گل تر بھی شرر سے نکلا
راجیندر منچندا بانی