EN हिंदी
اک فقط ساحل تلک آتا ہوں میں | شیح شیری
ek faqat sahil talak aata hun main

غزل

اک فقط ساحل تلک آتا ہوں میں

پرتپال سنگھ بیتاب

;

اک فقط ساحل تلک آتا ہوں میں
رو میں جانے کیسے بہہ جاتا ہوں میں

منزلوں کی جستجو میں بارہا
منزلوں سے آگے بڑھ جاتا ہوں میں

بھاگتا ہوں رات جس جنگل سے دور
صبح اسی کو سامنے پاتا ہوں میں

کس افق میں دفن ہو جاتا ہے دن
ہر شب اس الجھن کو سلجھاتا ہوں میں

مر گیا جو شخص مجھ میں اس کا روز
پتھروں پر نام کھدواتا ہوں میں

قفل ابجد ہوں بس اک ترتیب سے
کھولنے والا ہو کھل جاتا ہوں میں

بار بار اس شہر کو بیتابؔ کیوں
با دل نا خواستہ جاتا ہوں میں