اک دوجے میں بھی تو رہا جا سکتا ہے
ہجر ابھی کچھ دن ٹالا جا سکتا ہے
یوں بھی تو کتنی چیزیں ہیں اس گھر میں
میرا دل کچھ روز رکھا جا سکتا ہے
خار اگر ہیں پھول بھی تو ہے تھوڑے سے
دامن کو تو مہکایا جا سکتا ہے
کاش مرا دل وہ بچہ ہی رہتا جو
آسانی سے بہلایا جا سکتا ہے
پیراہن الفاظ کے بوٹوں والا اک
خاموشی کو پہنایا جا سکتا ہے
ٹوٹ کے ہی احساس مجھے یہ ہو پایا
درد ابھی کچھ اور سہا جا سکتا ہے
آپ خدا ہونے کی کوشش میں ہیں پر
صرف آشنا بھی تو ہوا جا سکتا ہے

غزل
اک دوجے میں بھی تو رہا جا سکتا ہے
ونیت آشنا