اک برف کا دریا اندر تھا
دہکا ہوا سورج سر پر تھا
نفرت کے شعلے دہکتے تھے
اک خوف کا عالم گھر گھر تھا
ہر دل میں تھے خدشات کئی
ہر لمحہ دہشت منظر تھا
ظاہر میں لگتا تھا موم کا وہ
چھو کر دیکھا تو پتھر تھا
نغمے لکھتا تھا اشکوں سے
ایسا بھی ایک سخنور تھا
جو ہار کو جیت بنا دیتا
کیا کوئی ایسا سکندر تھا
ہنستا رہتا تھا وہ غم میں
غم کا وہ شاید خوگر تھا
غزل
اک برف کا دریا اندر تھا
صاحبہ شہریار