EN हिंदी
ادھر کچھ دن سے دل کی بیکلی کم ہو گئی ہے | شیح شیری
idhar kuchh din se dil ki bekali kam ho gai hai

غزل

ادھر کچھ دن سے دل کی بیکلی کم ہو گئی ہے

عرفان ستار

;

ادھر کچھ دن سے دل کی بیکلی کم ہو گئی ہے
تری خواہش ابھی ہے تو سہی کم ہو گئی ہے

نظر دھندلا رہی ہے یا مناظر بجھ رہے ہیں
اندھیرا بڑھ گیا یا روشنی کم ہو گئی ہے

ترا ہونا تو ہے بس ایک صورت کا اضافہ
ترے ہونے سے کیا تیری کمی کم ہو گئی ہے

خموشی کو جنوں سے دست برداری نہ سمجھو
تجسس بڑھ گیا ہے سرکشی کم ہو گئی ہے

ترا ربط اپنے گرد و پیش سے اتنا زیادہ
تو کیا خوابوں سے اب وابستگی کم ہو گئی ہے

سر طاق تمنا بجھ گئی ہے شمع امید
اداسی بڑھ گئی ہے بے دلی کم ہو گئی ہے

سبھی زندہ ہیں اور سب کی طرح میں بھی ہوں زندہ
مگر جیسے کہیں سے زندگی کم ہو گئی ہے