EN हिंदी
ابتدا ہوں کہ انتہا ہوں میں | شیح شیری
ibtida hun ki intiha hun main

غزل

ابتدا ہوں کہ انتہا ہوں میں

رفعت سلطان

;

ابتدا ہوں کہ انتہا ہوں میں
عمر بھر سوچتا رہا ہوں میں

لفظ و معنی سے ماورا ہوں میں
ایک خاموش التجا ہوں میں

دل میں کوئی خوشی نہیں لیکن
عادتاً مسکرا رہا ہوں میں

ناتواں ہو کے عدل چاہتا ہوں
واقعی قابل سزا ہوں میں

دیکھ کر رنگ بزم عالم کا
نقش دیوار بن گیا ہوں میں

صبح کے انتظار میں رفعتؔ
رات بھر سوچتا رہا ہوں میں