عبرت دہر ہو گیا جب سے چھپا مزار میں
خیر جگہ تو مل گئی دیدۂ اعتبار میں
توڑ رہا ہے باغباں پنکھڑیاں بہار میں
کوئی تو ہو فدائے گل ایک نہیں مزار میں
محو ہوں یاد چہرۂ شاہد گل عذار میں
اب یہ خزاں نصیب دل جا کے ملا بہار میں
اوج نہاد طبع کی مٹ کے بھی شان رہ گئی
مر کے میں سوئے آسماں مل کے اڑا غبار میں
میرے لباس کہنہ سے ہٹتی نہیں ہے ان کی آنکھ
شاید الجھ گئی نظر جامۂ تار تار میں
تم نے شب فراق میں دیکھیں نہیں جو حالتیں
آج وہ آ کے دیکھ لو عالم احتضار میں
جذب شمیم زلف ہے دانۂ دام سے سوا
سیکڑوں دل کھنچ آئے ہیں گیسوئے مشکبار میں
فیصلہ ہو ہی جائے گا چھنٹنے دے بھیڑ حشر کی
ثاقبؔ دل حزیں ہے آج تو بھی کسی شمار میں
غزل
عبرت دہر ہو گیا جب سے چھپا مزار میں
ثاقب لکھنوی